سید کا غیر سید سے نکاح قرآن و حدیث کی روشنی میں
سید کا غیر سید سے نکاح - قرآن و حدیث کی روشنی میں
1. قرآن مجید کی روشنی میں
"إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ"
(سورۃ الحجرات، آیت 13)
ترجمہ: بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ حسب و نسب نہیں بلکہ تقویٰ کو فوقیت دی گئی ہے۔
2. حدیث مبارکہ کی روشنی میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إذا أتاكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه"
(ترمذی)
ترجمہ: جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کے دین و اخلاق سے تم راضی ہو، تو اس سے نکاح کر دو۔
یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ نکاح میں اصل معیار دین اور اخلاق ہے، نہ کہ نسب۔
3. فقہی موقف
چاروں ائمہ کرام (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل) کے نزدیک سید کا غیر سید سے نکاح جائز ہے۔
البتہ اگر خاندان میں اس نکاح پر ناراضی یا فتنہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، تو حکمت اور دانائی سے فیصلہ کرنا بہتر ہے۔
4. خلاصہ
- شرعی طور پر سید کا غیر سید سے نکاح جائز ہے۔
- اصل معیار تقویٰ، دین داری، اور اخلاق ہے۔
- اگر خاندان میں فتنے یا اختلاف کا اندیشہ ہو، تو مشورے اور دانائی سے فیصلہ کرنا چاہیے۔
- جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے بعض لوگ اسے حرام قرار دیتے ہیں
- نہ تو قرآن نہ ہی احادیث اور نہ ہی صحابہ و اہلبیت اور نہ امام اربعہ سے سید کا غیر سید سے نکاح حرام ثابت نہیں۔
- یہ قومیت اور تنگ نظری کی بناء پر اسے حرام قرار دیا گیا ہے
- آج کل جو سیدوں میں غیرت کے نام پر عورت اور بیٹیوں کو قتل کرنا پایا جاتا ہے کیا یہ کوئی اسلام کا اہم جزو ہے ؟
- ہرگز نہیں یہ حضورﷺ کی آمد سے قبل غیر مسلم یعنی کہ کافر ایسا کرتے تھے
- یاد رہے اسلام میں تمام مسلمان برابر ہیں کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ماسوائے تقوی کے جو جتنا پرہیزگار و متقی ہو گا وہ اللہ کہ ہاں اتنا ہی پسندیدہ ہے
- غیرسید سے شادی کرنے پر غیرت کے نام پر جو ماؤں بیٹیوں کو قتل کرتے ہیں ایسا جانور بھی نہیں کرتے۔
- قتل و غارتگری یہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے
Comments
Post a Comment